Horror
all age range
2000 to 5000 words
Urdu
Story Content
ساجد نام کا ایک نوجوان، گاؤں حسن پور کے پُرسکون ماحول میں پلا بڑھا۔
حسن پور، اگرچہ دیکھنے میں دلفریب تھا، لیکن ایک عجیب سایہ اس پر پڑا ہوا تھا۔
یہ سایہ خونی جھیل کا تھا، جو گاؤں کے کنارے پر واقع تھی۔
کہا جاتا تھا کہ جھیل میں ان لوگوں کی روحیں قید ہیں جو برسوں پہلے ایک دردناک واقعے میں مارے گئے تھے۔
ہر سال، ساجد اور اس کے دوست خونی جھیل پر پکنک منانے جاتے تھے۔
لیکن اس سال، فضا میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔
جھیل کا پانی معمول سے زیادہ سرخ لگ رہا تھا، اور ہوائیں سرگوشیوں کی طرح چل رہی تھیں۔
ساجد نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ اسے عجیب سا خوف محسوس ہو رہا ہے۔
اس کے دوستوں نے اسے مذاق سمجھا، لیکن ساجد جانتا تھا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
جیسے ہی شام ہوئی، جھیل سے عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں۔
پانی میں بلبلے اُٹھ رہے تھے، اور ایک دھند نے جھیل کو ڈھانپ لیا۔
ساجد اور اس کے دوست خوفزدہ ہو گئے، اور وہ بھاگنے کی تیاری کرنے لگے۔
اچانک، جھیل سے ایک بھیانک مخلوق نمودار ہوئی۔
اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ تھیں، اور اس کے دانت استرے کی طرح تیز تھے۔
مخلوق نے ایک زوردار چیخ ماری، جس سے زمین لرزنے لگی۔
ساجد اور اس کے دوست دہشت زدہ ہو گئے، اور وہ مختلف سمتوں میں بھاگنے لگے۔
ساجد بھاگتے ہوئے ایک پرانی حویلی میں داخل ہو گیا۔
حویلی میں اندھیرا چھایا ہوا تھا، اور ایک سرد ہوا چل رہی تھی۔
ساجد نے حویلی کے اندر ایک کمرے میں پناہ لی۔
کمرے میں ایک پرانی کتاب پڑی ہوئی تھی۔
ساجد نے کتاب کھولی اور پڑھنے لگا۔
کتاب میں خونی جھیل اور اس میں قید روحوں کے بارے میں لکھا تھا۔
کتاب میں یہ بھی لکھا تھا کہ ان روحوں کو آزاد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
لیکن یہ طریقہ بہت خطرناک تھا۔
ساجد کو معلوم تھا کہ اسے کچھ کرنا ہوگا۔
اسے اپنے دوستوں کو بچانا تھا، اور گاؤں کو اس سایے سے آزاد کروانا تھا۔
ساجد نے کتاب میں لکھا ہوا طریقہ کار کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے کتاب میں بتائے گئے مقام پر ایک خاص رسم ادا کی۔
جیسے ہی رسم مکمل ہوئی، حویلی لرزنے لگی۔
خونی جھیل سے چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔
مخلوق غائب ہو گئی، اور دھند چھٹ گئی۔
ساجد حویلی سے باہر نکلا، اور اس نے دیکھا کہ جھیل پُرسکون ہو چکی ہے۔
اس کے دوست بھی زندہ تھے، لیکن وہ بہت خوفزدہ تھے۔
ساجد نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ اس نے کیا کیا تھا۔
اس کے دوستوں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔
لیکن ساجد جانتا تھا کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔
روحیں آزاد ہو چکی تھیں، اور وہ اب گاؤں میں گھوم رہی تھیں۔
ساجد کو اب ان روحوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا تھا۔
ساجد نے ایک لمبی اور خطرناک جنگ شروع کی۔
اس جنگ میں اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
آخر کار، ساجد نے تمام روحوں کو ختم کر دیا۔
گاؤں حسن پور ہمیشہ کے لیے آزاد ہو گیا۔
لیکن ساجد کبھی نہیں بھولا کہ اس نے کیا کیا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ بُرائی ہمیشہ کہیں نہ کہیں موجود رہے گی۔
اور وہ ہمیشہ اس سے لڑنے کے لیے تیار رہے گا۔
ساجد کی بہادری کی داستانیں گاؤں حسن پور میں آج بھی سنائی جاتی ہیں۔
اور لوگ اسے ایک ہیرو کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
لیکن ساجد خود کو ہیرو نہیں مانتا تھا۔
وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ اس نے صحیح کام کیا۔
وہ جانتا تھا کہ اس نے اپنے گاؤں کو بچایا۔
اور وہ جانتا تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے گاؤں کو بچاتا رہے گا۔
یہ کہانی ہے ساجد کی، ایک ایسے نوجوان کی جس نے اپنے گاؤں کو بُرائی سے بچایا۔
یہ کہانی ہے خونی جھیل کے راز کی، جو گاؤں حسن پور کے دل میں چھپا ہوا تھا۔
حسن پور کے لوگ آج بھی خونی جھیل سے ڈرتے ہیں۔
لیکن وہ ساجد کو بھی یاد رکھتے ہیں۔
وہ ساجد کو اس شخص کے طور پر یاد رکھتے ہیں جس نے انہیں بُرائی سے بچایا۔
اور وہ جانتے ہیں کہ اگر کبھی بُرائی واپس آئی، تو ساجد دوبارہ آئے گا۔
کیونکہ ساجد حسن پور کا محافظ ہے۔
اور وہ ہمیشہ حسن پور کا محافظ رہے گا۔